کھانے کی قدر چین سے سیکھیے

چین (ویب ڈیسک)دنیا بھر سے بھوک کا خاتمہ اقوام متحدہ کے 2030 کے پائیدار ترقیاتی اہداف میں شامل ایک اہم ہدف ہےلیکن اب بھی عالمی سطح پر آبادی کا ایک بڑا حصہ بھوک یا پھر غذائی قلت کا شکار ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں دو ارب سے زائد لوگ ایسے ہیں جنہیں محفوظ ،غذائیت بخش اور وافر خوراک دستیاب نہیں ہے۔ماہرین کے مطابق دنیا کی آبادی 2050 تک تقریباً دس ارب ہو جائے گی اور ایسے میں خوراک کی کمی ایک بڑامسئلہ ہو سکتی ہے۔ اس وقت دنیا میں تقریباً ساٹھ کروڑ نوے لاکھ سے زائد افراد کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے جبکہ اس تعداد میں گزشتہ برس 2019 کی نسبت ایک کروڑ کا اضافہ ہوا ہے۔ کووڈ۔19 سے جہاں تمام ممالک کی معیشتیں بری طرح متاثر ہوئی ہیں وہاں غربت اور بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ماہرین نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ عالمگیر وبا کے باعث غذائی قلت کے شکار افراد کی تعداد میں تراسی لاکھ سے تیرہ کروڑ تک اضافہ ہو سکتا ہے ۔یہ امر قابل زکر ہے کہ ناقص غذائیت سے جڑے تمام عوامل جس میں غذائی قلت ،موٹاپا وغیرہ شامل ہیں ، ان سے عالمی معیشت کو پہنچنے والے سالانہ نقصان کی مجموعی مالیت تقریباً ساڑھے تین ٹریلین ڈالرز ہے۔ ان اعداد و شمار کے بعد اب رخ کرتے ہیں چین کا جو دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے ۔زرعی مصنوعات کی پیداوار کے لحاظ سے بھی چین کو کئی اعتبار سے سبقت حاصل ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ چین خوراک میں خودکفیل ہے تو بے جا نہ ہو گا کیونکہ گزشتہ برس چین میں اناج کی مجموعی پیداوار 660 ملین میٹرک ٹن تک پہنچ چکی ہے جس میں سال 2010 کی نسبت بیس فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔لیکن خوراک میں خودکفالت کے باوجود چینی صدر شی جن پھنگ نے حالیہ دنوں ہدایات جاری کیں کہ ملک بھر میں کھانے کے ضیاع کو روکا جائے اور کفایت شعاری کو فروغ دیا جائے۔انہوں نے کھانے کے ضیاع کو افسوسناک اور پریشان کن قرار دیا۔صدر شی نے واضح کیا کہ اگرچہ رواں برس ملک میں فصلوں کی بہترین پیداوار ہوئی ہے مگر پھر بھی یہ لازم ہے کہ خوراک کے تحفظ سے وابستہ بحران سے آگاہ رہا جائے کیونکہ کووڈ۔19 نے سب کے لیے خطرے کی گھنٹی بجائی ہے۔یہ بات اہم ہے کہ چینی صدر نے کھانے کے ضیاع کو روکنے کے لیے قانون سازی کی مضبوطی اور نگرانی پر زور دیا اور ایک ایسے دیرپا لائحہ عمل کی تشکیل کی ہدایت کی جس سے کھانے کے ضیاع کو روکا جا سکے۔اس ضمن میں خوارک کے تحفظ کے لیے عوام میں شعور بیدار کرنا، ،کفایت شعاری کو فروغ دینا اور ایک ایسا کلچر متعارف کروانا جس میں لوگ کھانے کے ضیاع کو باعث شرمندگی اور کھانے کے تحفظ میں فخر محسوس کریں ،کو اہمیت حاصل رہے گی۔ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ چینی صدر نے کھانے کے ضیاع کو روکنے کی ہدایت کی ہو ، اس سے قبل کئی مواقعوں پر اُن کی جانب سے خوراک کے تحفظ پر زور دیا گیا ہے۔2013 میں انہوں نے چینی سماج پر زور دیا کہ کھانے ضائع کرنے کی عادات کی حوصلہ شکنی کی جائے۔چینی شہریوں نے بھی اس حوالے سے اپنی ذمہ داری نبھائی اور باقاعدہ ایک مہم "اپنی پلیٹ صاف کریں” شروع کی گئی جسے عوام میں بہت مقبولیت ملی۔ریستورانوں نے بھی کھانے کے آرڈرز میں اس بات کو لازمی بنایا کہ صارفین آغاز میں کھانے کی نصف مقدار آرڈر کریں گے تاکہ کھانا ضائع نہ ہو۔اعداد و شمار کے مطابق چین میں سالانہ سترہ سے اٹھارہ ملین ٹن کھانا ضائع کر دیا جاتا ہے جبکہ بڑے شہروں میں تو یہ مقدار تیس سے پچاس ملین ٹن سالانہ ہے۔سال 2015 میں کیے جانے والے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ چین میں ضائع کردہ کھانوں میں سبزیاں ،چاول ،نوڈلز اور گوشت شامل ہیں۔ہر صارف ایک کھانے میں 93 گرام کھانا ضائع کرتا ہے جبکہ اسکول کیفے ٹیریاز اور بڑے ریستورانوں میں نسبتاً زیادہ کھانا ضائع ہوتا ہے۔ اگر عالمی سطح پر جائزہ لیا جائے تو کھانے کا ضیاع ایک تشویشناک مسئلہ ہے۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال پیدا ہونے والے اناج کا ایک تہائی ضائع کر دیا جاتا ہے جبکہ ضائع کردہ کھانے کی مقدار تقریباً 1.3 ارب ٹن ہے۔اگر اس رحجان کو روکا نہ گیا تو 2030 تک ضائع کردہ کھانے کی مقدار 02 ارب ٹن سے تجاوز کر جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کھانے کے ضیاع کو روکنے کے لیے باربار اپیل کر رہی ہے تاکہ کروڑوں لوگوں کو غذائی قلت سے بچایا جا سکے۔یہ تلخ حقیقت ہے کہ افریقہ ،مشرق وسطیٰ اور ایشیائی خطے میں غذائی بحران کے باوجود خوشحال معاشروں میں خوارک کا ضیاع افسوسناک ہے۔ امریکہ اور یورپی یونین بھی ضائع کردہ خوراک کے اعتبار سے سرفہرست ہیں۔امریکہ میں فوڈ سپلائی کا تیس سے چالیس فیصد ضائع کر دیا جاتاہے جبکہ تقریباً ساٹھ ارب کلو گرام خوراک ضائع ہو جاتی ہے ، یورپی یونین میں سالانہ ضائع کردہ خوراک کی مقدار تقریباً اٹھاسی ارب کلوگرام ہے۔اس صورتحال میں خوراک کا تحفظ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے کیونکہ دنیا کے ایسے علاقے جنہیں تنازعات ،شدید موسمی حالات ،کووڈ۔19 اور اقتصادی بدحالی کا سامنا ہے ،وہاں عوام کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنا یقیناً کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔قدرتی آفات کے باعث بھی اکثر زرعی پیداوار متاثر ہوجاتی ہے مثلاً حالیہ عرصے میں چین کے ستائیس صوبوں میں سیلاب کے باعث تین ملین ہیکٹرز رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں جس کے باعث رواں برس چین میں اناج کی مجموعی پیداوار میں11.2 ملین ٹن کی کمی ہو گی لہذا ان تمام امور کو مدنظر رکھتے ہوئے خوراک کے تحفظ کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔یہ بات قابل تحسین ہے کہ چین کا آئین بھی خوراک کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔چین کا زرعی قانون شہریوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ کھانے کا تحفظ کریں جبکہ ماحولیاتی قانون ،صارفی حقوق کے تحفظ کا قانون اور خوراک کے تحفظ کا قانون بھی اناج کے وسائل کے ضیاع کو روکتا ہےاور ماحولیاتی تحفظ کی حمایت کرتا ہے۔بلاشبہ قوانین تو موجود ہیں مگر ان پر عملدرآمد ہر شہری کا فرض ہے ،اگر ہم سب اپنی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے کھانےکے ضیاع سے اجتناب کریں تو اس سے کروڑوں لوگوں کا بھلا ہو سکتا ہے۔چین ایک بڑے ملک کی ذمہ داری تو بخوبی نبھا رہا ہے لیکن پاکستان اور دیگر ترقی پزیر ممالک جہاں چین کی اقتصادی ترقی سے سیکھنے کے خواہاں ہیں وہاں سماجی اعتبار سے بھی اگر انہی رویوں کو پروان چڑھایا جائے تو خوراک کےشعبے میں خودکفالت میں مدد مل سکتی ہے اور پوری انسانیت کا فائدہ ہو سکتا ہے۔